Homeکالم افغانستان کل اور آج تحریر: مسز جمشید خاکوانی National Media Service May 31, 2025 افغانستان کل اور آجتحریر: مسز جمشید خاکوانیجب روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے تب ہم بھی اتنے سمجھ دار نہ تھے بس ہر طرف یہی غلغلہ تھا مسلمان ملک پر حملہ ہوا ہے اور ہمیں انکی مدد کرنی ہے نہ تو سیاست کا پتہ تھا کہ اس کے مضمرات کیا ہونگے ایک دن ہمارے گھر میں ایک لحیم شحیم عورت سبز پرنٹڈ پٹھانیوں والے لباس میں جس پر موتیوں سپیوں اور کشیدہ کاری کا کام تھا گلے میں چاندی کا اتنا بڑا ہار، جھمکے چوڑیاں، کڑے پاؤں ننگے مگر چھن چھن کرتی جھانجریں وہ آندھی طوفان کی طرح اندر آئی تو میں گھبرا گئی میں اکیلی بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی ملازم سودا لینے گیا ہوا تھا گرمیاں تھیں اس لیے میں برآمدے میں ناشتہ کرنے بیٹھ گئی گھر میں اس وقت کوئی نہ تھا اس نے آتے ہی مکھن لگا توس میرے ہاتھ سے جھپٹ لیا میں اس اچانک افتاد پر گھبرا گئی پوچھا کون ہو کیا چاہتی ہو بولی افغان ماس دو مجھے ماس کھانا ہے اس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی میں نے اسے انڈہ توس مکھن سب دیا لیکن وہ ماس ماس کرتی چلی گئی بعد میں پتا چلا وہ گوشت مانگ رہی تھی یہ بے سرو سامان افغانی آہستہ آہستہ پاکستان میں پھیلتے گئے اور کاروبار میں بھی دخل انداز ہوگئے سمگل کیے ہوئے کپڑوں کی دکانیں کھول لیں زیادہ کرایہ لینے کے چکر میں کسی نے اس صورت حال کے بارے میں نہ سوچا لوگ انہیں مجاہد سمجھ کر احترام کرتے پشتون آپس میں رشتہ داریاں کرنے لگے اور سیاستدان اپنی سازشوں میں لگ گئے کسی کو پلاٹ پر قبضہ کرنا ہوتا تو یہ اول حاضر اینٹوں کے بھٹے بنا لیے کچھ پاکستانی پاسپورٹ پر باہر آنے جانے لگے جہاں سے سمگل شدہ مشینری، الیکٹرک کا سامان کپڑے، کراکری وغیرہ دکانداروں کی تو چاندی ہوگئی، گویا ہر ایک نے ان سے اپنے مطلب کا کام لیا لڑائی بھڑائی کے ماہر یہ سخت جان لوگ جب اپنے قدم جما چکے تب تک روس شکست کھا کر بھاگ چکا تھا لیکن امریکہ اپنا مکروہ پلان ترتیب دے چکا تھا فوج کو الزام دینے والے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ معاملات اس وقت خراب ہوتے ہیں جب سیاستدان اپنے فائدے کے لیے اس سچویشن یا ایسے لوگوں کو استمعال کرتے ہیں ضیا الحق نے جو بھی کیا ملک کا برا نہیں سوچا ہوگا جب تک وہ زندہ رہا کسی کو جرأت نہیں ہوئی پاکستانیت پر حملہ کرتا اس کے ڈنڈے نے سب کو سیدھا رکھا اس قدر کہ آخر امریکہ کو اسے اپنے رستے سے ہٹانا پڑا افسوس کہ امریکہ کو ہمیشہ ہمارے اندر سے ایسے ایلیمنٹ مل جاتے ہیں جن کو وہ بخوبی خرید سکتا ہے، ضیا الحق کے بعد امریکہ پوری طرح دخیل ہوگیا واحد سپر طاقت ہونے کے زعم میں اس نے ہر قسم کا کھیل کھیلا پاکستان میں اس کی مرضی سے چیف لگتے رہے ہر ادارہ گھٹنے ٹیکتا گیا نواز اور زرداری نے ہر طرح سے ساتھ دیا اور پھر وہ بھیانک کھیل ترتیب دیا گیا مشرف کو امریکہ نواز کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ مشرف نے ہی امریکہ کو سب سے زیادہ زک پہنچائی کہ امریکہ اس سے انتقام لینے کے لیے پاگل ہوگیا اور زردادری جیسے کی لاٹری نکل آئی امریکہ، نیو ورلڈ آرڈر، کو ترتیب دے چکا تھا 2001 میں ایک ریس لگی تھی نیو ورلڈ آرڈر کو نافذ کرنے کی جس پر عملدرامد کرنے کے لیے ایشیا میں افغانستان کو چنا گیا کہ یہاں بیٹھ کر ایشیا میں نیو ورلڈ آرڈر کا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے گا جس میں ہندوستان کو کلیدی کردار ادا کرنا تھا،دہشتگردی کے لیے کے پی کے میں ٹی ٹی پی کو، بلوچستان میں بی ایل اے، بی ایل ایف کو کراچی میں ایم کیو ایم کو اور پنجاب میں پنجابی طالبان کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو اندرونی خلفشار کا شکار کرنا تھا اس ساری صورت حال میں مشرقی سرحد پر ہندوستان اور مغربی سرحد پر دہشت گردوں اور افغان فورسز کا مشترکہ دباؤ بڑھاتے ہوئے پاکستان کو مکمل نیو ورلڈ آرڈر کے تابع کرنے اور ہندوستان کو خطے کا راجہ بنانا مقصود تھا لیکن آج بیس سال بعد صورتحال بالکل الگ ہے میں پرانی باتیں دہرا کر آپ کا وقت ضایع نہیں کرونگی کہ کس نے صحیح فیصلہ کیا کس نے غلط سیاستدان اچھے تھے یا جرنیل غلط میں سمجھتی ہوں اس وقت مشرف نے جو کیا وہ صحیح فیصلہ تھا اور آج عمران خان نے جو سٹینڈ لیا ہے یہ بہترین فیصلہ ہے نیت نہ مشرف کی بری تھی نہ عمران خان کی بری ہے مشرف غدار ہوتا تو یہ نیو ورلڈ آرڈر 2005 میں مکمل طور پر نافذ ہو چکا ہوتا لیکن ہماری بہادر فوج اور آئی ایس آئی نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر اس خواب کو پورا نہ ہونے دیا خدا خدا کر کے ان کو ایک ایماندار اور دلیر لیڈر ملا ہے جس کی وجہ سے امریکہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں اپنی آخری سسکیاں لے رہا ہے بلکہ جوتیاں چھوڑ کے بھاگ چکا ہے اس کا بھارت راجہ تھر تھر کانپ رہا ہے اور اپنے ہی ملک میں اپنی ہی لگائی آگ میں جھلس رہا ہے اب کے انڈین میڈیا بھی ہماری تعریف کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ یہ آگ بڑھتی جا رہی ہے افغانستان میں موجود سرخوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے ایک ملک میں دو صدور نے حلف صدارت اٹھا رکھا ہے جبکہ دونوں افغانستان میں دو دو کلو میٹر کے علاقے کے صدر ہیں اب تو شائد طالبان کافی علاقوں پر قابض ہو ہوچکے ہیں، بنگلہ دیش جس کو ہندوستان نے ایک سازش کے تحت پاکستان سے الگ کیا تھا وہاں کے لوگ مودی کو اپنے ملک کا دورہ تک نہیں کرنے دے رہے، ایران ہندوستان سے تقریبا مکمل طور پر کٹ چکا ہے پاکستان ہر گذرتے دن کے ساتھ معاشی اور دفاعی طور پر مستحکم ہو رہا ہے نہ امریکہ کے افغانستان میں پاؤں جمے نہ بھارت خطے کا راجہ بن پایا اور نہ ہی نیو ورلڈ آرڈر نافذ ہو پایا آج دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ بیس سال پہلے شروع ہونے والی ریس دنیا کی سپر پاور اپنے لاؤ لشکر اور ہمارے مقامی نمک حراموں کی تائید اور مدد کے باوجود یہ ریس ہار چکی ہے اور اس ریس کا دوسرا فریق ایک کمزور سا ملک ان کے آگے سینہ تانے کھڑا ہے یقیننا یہ میرے اللہ کا خاص کرم ہے پاک فوج کی قربانیاں ہیں کہ پاکستان کا ایک ایماندار لیڈر سپر”پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہتا ہےابسولوٹلی نوٹ"!!!
0 Comments