سماجی اعتبار سے بظاہر محمد آصف حفیظ انتہائی اعلیٰ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ دنیا کے جانے مانے تاجر تھے جو لندن میں ایک پولو کلب کے سفیر تھے اور ان کا شاہی خاندان سمیت برطانیہ کی اشرافیہ سے ملنا جلنا رہتا تھا۔وہ باقاعدگی سے برطانیہ اور مشرق وسطیٰ کے حکام کو تفصیلی معلومات بھی فراہم کرتے تھے اور وہ ایسی اطلاعات تھیں کہ ان کی بنیاد پر منشیات کی بھاری کھیپ کو روکنے میں مدد ملتی تھی۔ان کے مطابق وہ ایسا اس وجہ سے کرتے تھے کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ معاشرے سے مجرمانہ سرگرمیوں کا خاتمہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے بارے میں شاید یہی تاثر دینا چاہتے تھے۔حقیقت میں محمد آصف حفیظ ہی وہ شخصیت تھے جن کے بارے میں امریکی حکام نے کہا کہ وہ ’دنیا کے سب سے بڑے منشیات سمگلروں میں سے ایک‘ تھے۔وہ برطانیہ میں اپنی رہائش گاہ سے منشیات کی ایک وسیع سلطنت کے سرغنہ تھے، جو پاکستان اور انڈیا سے کئی ٹن ہیروئن، میتھامفیتامین اور حشیش (چرس) سپلائی کرتے تھے۔ یہ منشیات دنیا بھر میں جاتی تھیں۔آصف حفیظ نے جن گروہوں کے بارے میں متعلقہ حکام کو اطلاع دی، وہ ان کے حریف تھے اور ان کا محرک اپنے حریفوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اس مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا تھا۔انڈرورلڈ میں اس نمایاں مقام کی وجہ سے انھیں ’سلطان‘ پکارا جاتا تھا مگر ان کی یہ مجرمانہ طاقت اور مقام زیادہ دیر رہنے والا نہیں تھا۔برطانوی اور امریکی حکام کے ایک مشترکہ آپریشن کے بعد 66 برس کے آصف حفیظ کو 2023 میں برطانیہ سے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ گذشتہ نومبر انھوں نے اعتراف جرم کیا۔جمعے کے روز انھیں نیویارک کی ایک جیل میں منشیات سمگل کرنے کی سازش کرنے پر 16 برس کی سزا سنائی گئی۔ ان پر جو فرد جرم عائد کی گئی اس کے مطابق انھوں نے ہیروئن سمیت بڑی مقدار میں خطرناک منشیات امریکہ بھی سمگل کیں۔ آصف حفیظ سنہ 2017 سے حراست میں ہیں اور ان کی یہ سزا 2033 میں ختم ہو گی۔بی بی سی نے محمد آصف کے مقدمے کی پیروی کی۔ ہم نے عدالتی دستاویزات، کارپوریٹ لسٹنگ اور ان لوگوں کے انٹرویوز سے معلومات اکٹھی کیں جو انھیں جانتے تھے۔ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ اتنے عرصے سے حکام کی نظروں سے اوجھل کیسے رہے اور پھر آخرکار کیسے پکڑے گئے۔آصف حفیظ ستمبر 1958 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کے چھ بچوں میں سے ایک تھے جن کی پرورش عیش و عشرت میں ہوئی۔لاہور میں اس خاندان کو جاننے والوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد شہر کے قریب ایک فیکٹری کے مالک تھے۔ آصف حفیظ نے ایک امریکی عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ انھوں نے کمرشل پائلٹ کی تربیت بھی حاصل کر رکھی ہے۔1990 کی دہائی کے اوائل سے لے کر 2010 کی دہائی کے وسط تک انھوں نے پاکستان، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں اپنے معمول کے کاروبار کے لیے ’سروانی انٹرنیشنل کارپوریشن‘ کے نام سے ایک کمپنی رجسٹر کرا رکھی تھی۔اس کمپنی (جو اب بند کر دی گئی ہے) کی ویب سائٹ کے مطابق اس نے دنیا بھر میں افواج، حکومتوں اور پولیس فورسز کو تکنیکی آلات فروخت کیے جن میں منشیات کا پتا لگانے والے آلات بھی شامل ہیں۔آصف حفیظ کی سروانی کارپوریشن کے تحت جو دیگر کاروبار تھے ان میں ایک ٹیکسٹائل کمپنی تھی جو کئی ممالک میں رجسٹر تھی اور لاہور میں ایک اطالوی ریسٹورنٹ جو ایک معروف ’نائٹس برج‘ برانڈ کی فرنچائز تھی۔ اس کے علاوہ لندن کے مغرب میں ونڈسر کے قریب ’ٹپمُور‘ نامی ایک کمپنی تھی جو پولو اور گھڑ سواری کی خدمات دینے میں مہارت رکھتی تھی۔ان کے اس طرح کے وسیع کاروباری نیٹ ورک نے انھیں نہ صرف ایک پرتعیش طرز زندگی گزارنے میں مدد دی بلکہ اس سے ان کی برطانیہ کے بہت خاص حلقوں تک رسائی بھی ممکن ہوئی۔وہ 2009 سے 2011 تک کم از کم تین سال کے لیے ایک مشہور ’ہیم پولو کلب‘ کے بین الاقوامی سفیر بھی رہے۔سنہ 2009 میں اس کلب میں وہ اپنی اہلیہ شاہینہ کے ساتھ ایک تصویر میں شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری کے ساتھ نظر آئے۔ہیم پولو کلب نے بی بی سی کو بتایا کہ محمد آصف حفیظ کبھی کلب کے رکن نہیں رہے اور اب کلب میں کوئی سفیر نہیں۔کلب کے مطابق موجودہ بورڈ کا ’ان سے کوئی تعلق نہیں‘۔ کلب نے مزید وضاحت دی کہ جس تقریب میں آصف حفیظ اور ان کی اہلیہ کی شہزادوں سے ملاقات کی تصویر سامنے آئی تھی، وہ بھی کسی تیسرے فریق کا کام تھا۔متعلقہ قانون کے تحت 2010 کی دہائی میں سروانی کارپوریشن اور اس سے جڑے کاروبار مختلف مراحل میں ختم کر دیے گئے۔

0 Comments